امجد اسلام امجد ۔۔۔ سلام مرا

سلام مرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشت میں شام ہوتی جاتی تھی
ریت میں بُجھ رہی تھیں وہ آنکھیں
جن کو اُنؐ کے لبوں نے چوما تھا
(جن کی خاطر بنے یہ ارض و سما)
پاس ہی جل رہے تھے وہ خیمے
جن میں خود روشنی کا ڈیرا تھا

ہر طرف تھے وہ زخم زخم بدن
جن میں ہر ایک تھا گہرکی  مثال
قیمتی، بے مثال ، پاکیزہ
دیکھ کر بے امان تیروں میں
ایک چھلنی ، فگار، مشکیزہ
رک رہا تھا فرات کا پانی
وقت اُلجھن میں تھا ، کدھر جائے
پھیلتے جا رہے تھے ہر جانب
بے کراں درد  کے گھنے سائے
جن میں لرزاں تھی ایک حیرانی
جو کہ گمنام ہوتی جاتی تھی
دشت میں شام ہوتی جاتی تھی

پھر اُسی شام کے تسلسل میں
شام والوں نے ، اہلِ کوُفہ نے
جلتے خیموں سے دربدر ہوتی
روشنی کا جلوس بھی دیکھا!
خاک اور خون میں تھیں آلودہ
اُن جبینوں کی چادریں کہ جنھیں
چاندنی چھپ کے ملنے آتی تھی
وہ حیا دار تھی نظر اُن کی
جس کا سب احترام کرتے تھے
خاک برسر، برہنہ پا، خاموش
چل رہی تھیں وہ بیبیاں ، جن کے
معتبر ، بے مثال شجرے کو
جُھک کے تارے سلام کرتے تھے

شہر کے راستوں کے گِردا گِرد
ہر طرف تھا ہجوم لوگوں کا
خُوگرِ ظلم ، سنگ دل، قاتل
تختِ ابلیسیہ کے کارندے
سب کی آنکھوں کے سامنے ان کو
پا بہ زنجیر کھینچے جاتے تھے

Related posts

Leave a Comment